logo
phone

Follow Us:

وقت نزع کافر کی توبہ اور مومن کی گناہ سے توبہ کا حکم

وقت نزع کافر کی توبہ اور مومن کی گناہ سے توبہ کا حکم

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ جب انسان کے نزع کا وقت آجائے تو کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟
اور اگر کافر ایمان لائے تو کیا اس کا ایمان لانا صحیح مانا جائے گا ؟
مفتیان کرام مدلل و مفصل جواب عطا فرماںٔیں۔

سائل : سید بشارت علی قادری
خادم: جماعت رضائے مصطفیٰ پوسد

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب

نزع کی وہ حالت جب روح نکل کر حلق تک پہنچ گئی ہو اس وقت نہ کفر سے توبہ کرنا مقبول نہ ایمان لانا معتبر ، اس لیے کہ اس وقت حجابات اٹھا دئے جاتے ہیں اور نرے کافر کو بھی اسلام کے سچے ہونے کا یقین ہو جاتا ہے جیسے فرعون کو –
اعتبار ، ایمان بالغیب کا ہے نہ کہ ایمان بالمشاہدہ کا –
مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلم نے ارشاد فرمایا : ” إن اللہ يقبل توبة العبد ما لم يغرغر “یعنی اللہ تبارک و تعالی بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک وہ غرغرہ کو نہ پہنچے ۔
(مشکوۃ المصابیح مع مرقاۃ المفاتیح، حدیث ٢٣٤٣، جلد ٥،صفحہ ٢٥٠ ، مطبوعہ:بیروت)
اس حدیث پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے : ”أي ما لم تبلغ الروح إلى الحلقوم يعني ما لم يتيقن بالموت فإن التوبة بعد التيقن بالموت لم يعتد بها “ یعنی جب تک اس کی روح حلق تک نہ پہنچ جائے ، جب تک اسے موت کا یقین نہ ہو جائے کیونکہ موت کا یقین ہوجانے کے بعد توبہ کسی شمار میں نہیں۔
(مرقاۃ المفاتیح، حدیث ٢٣٤٣، جلد ٥،صفحہ ٢٥٠۔٢٥١، مطبوعہ:بیروت)
اور جیسا کہ حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ مفتی امجد علی‌ اعظمی‌ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ” ہر شخص کی جتنی زندگی مقرّر ہے اُس میں نہ زیادتی ہو سکتی ہے نہ کمی جب زندگی کا وقت پورا ہو جاتا ہے، اُس وقت حضرت عزرائیل علیہ السلام قبض روح کے لیے آتے ہیں اور اُس شخص کے داہنے بائیں جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے فرشتے دکھائی دیتے ہیں ، مسلمان کے آس پاس رحمت کے فرشتے ہوتے ہیں اور کافر کے داہنے بائیں عذاب کے اور اُس وقت ہر شخص پر اسلام کی حقّانیت آفتاب سے زیادہ روشن ہو جاتی ہے، مگر اُس وقت کا ایمان معتبر نہیں ، اس لیے کہ حکم ، ایمان بالغیب کا ہے اور اب غیب نہ رہا، بلکہ یہ چیزیں مشاہد ہو گئیں –
(بہار شریعت،جلد اول ، ص٩٨)

لیکن بندۂ مومن کی توبہ اس وقت بھی مقبول ہے، یعنی غرغرے کی حالت میں بھی جب تک جان باقی ہے ۔
تفسیر روح البیان میں ہے “انه غير مقبول بخلاف توبة البأس فانها مقبولة على المختار“ یعنی کہ اس وقت کا ایمان لانا مقبول نہیں،ہاں مذہبِ مختار کے مطابق برائی سے توبہ اس وقت بھی مقبول ہے ۔
(روح البیان،جلد٨،صفحہ٢٢٣، دار الفكر ،بيروت)
نیز اسی طرح مراۃ المناجیح میں ہے ” نزع کی حالت کو جبکہ موت کے فرشتے نظر آجائیں غرغرہ کہتے ہیں، اس وقت کفر سے توبہ قبول نہیں کیونکہ ایمان کے لیے ایمان بالغیب ضروری ہے، اب غیب مشاہدہ میں آگیا، اسی لیے ڈوبتے وقت فرعون کی توبہ قبول نہ ہوئی، مگر گناہوں سے توبہ اس وقت بھی قبول ہے ۔
(مراۃالمناجیح جلد٣،صفحہ ٣٦٥،نعیمی کتب خانہ، گجرات)

واللہ ﷻ اعلم باالصواب

کتبہ:فقیر قادری مجاھدی
تاریخ : ۱۷/ جمادی الاخری / ١٤٤٥ھ
۳۱/ دسمبر/ ۲۰۲۳ء بروز یک شنبہ
❤️
الجواب صحیح والمجیب نجیح
مفتی محمد شہنواز شفق مصباحی صاحب قبلہ
قاضی شہر ممبرا ، مہاراشٹر ، الھند
صدر دارالعلوم فیضان رضا
❤️

الجواب صحیح:
مفتی محمد اسامہ قادری ، پاکستان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *