logo
phone

Follow Us:

🌹جاء الحق کی ایک عبارت پر سوال و جواب🌹

🌹جاء الحق کی ایک عبارت پر سوال و جواب🌹

السلام علیکم و رحمۃ اللہ
براہ کرم مسائل ذیل کا جواب عنایت فرمائیں ۔
یہ پیش کردہ عبارت کتاب جاء الحق کی ہے۔
١: یہ جو لکھا گیا ہے “سواے احکام خبر وغیرہ میں تقلید نہیں ہوگی جیسے مَسْلَہ کفر یزید” تو پتا چلا احکام خبر میں تقلید ہوگی، کیا یہاں احکام خبر سے مراد وہ حدیث شریف یا فروعی مسائل جو صریح نا ہو کیونکہ یہ مانا ہوا ہے کہ تقلید عقائد اور صریح احکام میں جائز نہیں ؟
٢: جب مَسْلَہ کفر یزید میں تقلید ناجائز ہے تو امام کہ مؤقف کی متابعت اس امام کے مقلید پر واجب نا ہوگی؟ تو کیا کوئی حنفی عالم یزید کو کافر یا مسلمان کہ سکتا ہے ۔
٣: مَسْلَہ تکفیر تقلیدی کیوں نہیں ؟ کیا اس لیئے کہ تکفیر میں خود کی نظر و فکر کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ عقائد میں۔
سائل:-محمد ریاض،کٹک ،اڑیسہ
ـــــــــــــــــــ🌹❤️🌹ـــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب

سوالات کے جوابات تو مختصر ہیں لیکن سوال میں بہت سی اصلاح کی ضرورت ہے لہذا کچھ وضاحت سے جواب عرض کرتا ہوں ۔

جواب ۱ :- “جاء الحق” کی متذکرہ عبارت “سواے احکام خبر وغیرہ” میں سواے احکام الگ ہے خبر الگ لیکن سائل نے اسے بترکیب اضافی “احکامِ خبر” پڑھا اس لیے اسکے بعد بار بار دونوں کو ایک ساتھ استعمال کیا پھر نتیجہ یہ نکالا “تو پتہ چلا احکام خبر میں تقلید ہوگی” ۔ جبکہ نہ یہ اس عبارت کا مفہوم ہے نہ مصنف کی مراد ۔ احکام میں تقلید تو ہے لیکن احکامِ خبر میں تقلید نہیں ہے یعنی تقلید شرعی ۔ اگر احکام ، خبر کو احکامِ خبر پڑھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ فقہی مسائل میں تقلید ضروری نہیں صرف حدیث اور خبر وغیرہ کے احکام یعنی خبر کے صحیح و ضعیف وغیرہ میں تقلید ضروری ہے حالانکہ یہ سراسر اہل سنت کے موقف کے خلاف ہے اور تقلید غیر شرعی کو تقلید شرعی قرار دینا ہے ۔
جاء الحق کی متذکرہ عبارت کا مطلب نیز پہلے سوال کا جواب بس اتنا ہے کہ احکام سے مراد فقہی مسائل ہیں اور خبر سے مراد احادیث اور دیگر روایات ہیں ۔ تقلید شرعی صرف مخصوص فقہی مسائل میں واجب ہے ہر فن کے مسائل میں نہیں ہاں مستحسن ہو سکتا ہے ۔
جواب ۲ :- سائل نے مسئلۂ تکفیر یزید میں تقلید کو ناجائز لکھا جبکہ جاء الحق کی عبارت میں بس “تقلید نہ ہوگی” لکھا ہے یعنی تقلید واجب نہیں ہوگی اور واجب نہ ہونے کا مطلب صرف ناجائز نہیں ہوتا مباح مستحب مستحسن کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ لہذا تکفیر یزید میں تقلید غیر واجب کے قبیل سے ہے کوئی کسی امام کے قول کو ترجیح دیتے ہوئے یزید کو کافر کہے تو کوئی حرج نہیں لیکن بر بنائے احتیاط قول امام اعظم کی متابعت یعنی کف لسان احوط و احسن ہے ۔
جواب ۳ :- مسئلۂ تکفیر کا تعلق باب عقائد سے ہے اور عقائد میں تقلید نہیں ہے ۔ ایمان و کفر دونوں کا تعلق باب عقائد سے ہے لیکن عقائد کا تقلیدی نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ اس میں خود کی نظر و فکر کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ سائل نے سمجھا ہے ہر شخص صاحب نظر نہیں ہوتا نیز نظر و فکر کی زیادہ ضرورت تو مسائل میں بھی ہوتی ہے بعدِ غور و فکر ہی مسائل کا استنباط و استخراج کیا جاتا یوں تو مسائل میں بھی تقلید منع ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ اس میں فکرو نظر درپیش ہے ۔ بلکہ عقائد قرآن و حدیث یا اجماع سے مبیّن و متعین ہوتے ہیں اس لیے تغیر زمانہ کے ساتھ وہ بدلتے نہیں ۔ چونکہ عقائد و اصول دین واضح اور متعین ہیں تو جس کسی کی تکفیر کا مسئلہ پیش آتا ہے تو اسکے قول و فعل کو دیکھا جاتا ہے پھر اس میں غور کیا جاتا ہے کہ اسکا وہ فعل اسلامی حدود سے باہر ہے یا نہیں اس طرح کے مواقع اور عقائد کے فروعی مسائل میں نظر و فکر کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ضرورت پڑنا الگ چیز ہے اور علت و سبب ہونا الگ چیز ۔ واللہ اعلم بالصواب
کتبہ:-فقیر قادری مجاہدی
تاریخ:١٤،صفرالمظفر/١٤٤٦ه‍
١٩،اگست/٢٠٢٤

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *