- November 29, 2024
- No Comments
- قادری مجاہدی مسائل گروپ
🌹شادی کس طرح کرنا چاہیے اور اس کے رسوم پر چند سوالات🌹
السلام علیکم و حمۃاللہ و برکاتہ
1- مسلمان کو کس طرح نکاح کرنا چاہیے؟
2-نکاح میں بہت سی ایسی رسومات ہیں جو جائز ہیں یا ناجائز اس کا پتہ نہیں مگر یہ سوالات آپ سے ہیں کہ شادی میں لڑکے کو ہلدی لگانا،مہندی لگانا اور دوسرے دن نکاح میں سونے کی انگوٹھی پہنانا،دولھا کو گاڑی سے اترتے وقت اسے گود میں لے کر کے جانا اور ایک رواج یہ بھی ہے نکاح کے ختم ہونے پر سارے لوگ لڑکے کو ایک جگہ پر بیٹھا دیتے ہیں گھر والے اسے پہچان دلاتے ہیں کہ یہ لڑکی کے فلاں ہیں لڑکی کے فلاں ہیں سب کو لڑکا سلام کرتا ہے سب اس کو سلامی یعنی تحفہ دیتے ہیں یہاں تک تو صحیح ہے اس کے بعد ایک حرکت یہ بھی کی جاتی ہے کہ لڑکی کی جو بہنیں وغیرہ ہوتی ہیں مل کر کے لڑکے کو ہاتھ لگاتی ہیں یعنی مارتے ہیں۔مذکورہ بالا رسومات کا شریعت مطہرہ میں کیا احکام ہیں؟جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
ایڈریس: محمد تسلیم رضا،کٹک، درگاہ بازار، قدم رسول، اڑیسہ
ـــــــــــــــ🌹🌹🌹ـــــــــــــــــ
وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
1=»نکاح سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اسے بجا لانے کے لیے ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ و سلَّم ، آپ صلی اللّٰہ علیہ اٰلہ وسلم کی شہزادی حضرت سیّدتنا فاطمہ زَہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے مبارک نکاح اور دیگر صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی شادیوں کو دیکھا جائے کیونکہ ہمارے لئے رہبر و رہنما یہی ہستیاں ہیں جن کی اتباع دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔
شادی کے لئے شریعت نے نہ تو کسی شادی ہال کو لازم قرار دیا ہے اور نہ ہی نمود و نمائش، آتش بازی اور فضول خرچیوں کو شادی کا حصہ قرار دیا ہے بلکہ ان میں سے بعض صورتیں تو ناجائز وحرام ہیں۔
ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُس نکاح کو برکت والا قرار دیا جس میں فریقین کا خرچ کم ہو چنانچہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مُؤْنَةً”ترجمہ : بڑی برکت والا وہ نکاح ہے جس میں بوجھ کم ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح،حدیث:٣٠٩٧)
حکیم الامّت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: یعنی جس نکاح میں فریقین کا خرچ کم کرایا جائے، مہر بھی معمولی ہو، جہیز بھاری نہ ہو، کوئی جانب مقروض نہ ہو جائے، کسی طرف سے شرط سخت نہ ہو، اﷲ (عَزَّوَجَلَّ) کے تَوَکُّل پر لڑکی دی جائے وہ نکاح بڑا ہی بابرکت ہے ایسی شادی خانہ آبادی ہے، آج ہم حرام رسموں، بے ہودہ رواجوں کی وجہ سے شادی کو خانہ بربادی بلکہ خانہا (یعنی بہت سارے گھروں کے لئے باعثِ) بربادی بنالیتے ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی اس حدیثِ پاک پر عمل کی توفیق دے۔(مراٰۃ المناجیح،ج٥،ص١١)
2=»جو رسم و رواج ایسے ہوں کہ ان کے کرنے سے کفار کی مشابہت یا شرعی اَحکام کی خلاف ورزی لازم آتی ہو تو ایسے رسم و رواج کو اپنانا جائز نہیں ورنہ جائز ہے جیسے دولہا کو ہلدی لگانا جائز ہے اس شرط کے ساتھ کہ کوئی غیر محرم نہ لگاے اور نہ ہی بے پردگی ہو اعلی حضرت مجدد اعظم امام احمد رضا خان علیہ الرحمتہ والرضوان فرماتے ہیں”ابٹن ملنا جائز ہے اور کسی خوشی پر گڑ کی تقسیم اسراف نہیں اور دولھا کی عمر نو دس سال کی ہو تو اجنبی عورتوں کا اس کے بدن میں ابٹن ملنا بھی گناہ و ممنوع نہیں۔ ہاں بالغ کے بدن میں نامحرم عورتوں کا ملنا ناجائز ہے اور بدن کو ہاتھ تو ماں بھی نہیں لگا سکتی یہ حرام اور سخت حرام ہے۔اور عورت و مرد کے مذاق کا رشتہ شریعت نے کوئی نہیں رکھا یہ شیطانی و ہندوانی رسم ہے۔”(فتاوی رضویہ جلد ٢٢/ص ٢٤٥)
اسی طرح دولھے کو گاڑی سے اترتے ہی استقبالًا یا محبتًا گود میں اٹھانا جائز ہے اور دولھا کو دلھن والوں کی جانب سے پہچان دلوانا پھر اس کا سلام کرنا اور دولھا کو تحفہ دینا بھی جائز ہے ہاں دولھا نہ کسی غیر محرم کو سلام کرے اور نہ ہی ان سے کوئی تحفہ خود قبول کرے فتاوی رضویہ شریف میں ہے” اجنبیات میں جوانوں کو سلام نہ کیا جائے ، بوڑھیوں کو کیا جائے۔”(فتاوی رضویہ ، ج ٢٢ ، ص: ٥٦٣ ) مرد کو مہندی لگانا جائز نہیں ہے اگر چہ شادی کا موقع یا دولھا کیوں نہ ہو بہار شریعت میں حضور صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ شادی کے رسوم کا تذکرہ کرتے ہوے فرماتیں ہیں “دولھا کو مہندی لگانا،ناجائز ہے”(بہار شریعت،جلد دوم،ص:١٠٥)،اسی طرح مرد کو سونے کی یا چاندی کے علاوہ دگر دھاتوں کی انگوٹھی یا زیور پہننا حرام اسی بہار شریعت میں ہے کہ “مرد کو زیور پہننا مطلقاً حرام ہے، صرف چاندی کی ایک انگوٹھی جائز ہے، جو وزن میں ایک مثقال یعنی ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو اور سونے کی انگوٹھی بھی حرام ہے۔ “(بہار شریعت ،جلد سوم،ص:٤٢٦)
لڑکی کی بہنیں اپنے بہنوئی کے لیے نامحرم ہیں اس لیے بہنوئی سے پردہ ہے۔ لہذا عورت کا اپنے بہنوئی کو بھائی سمجھ کر پردے کی قیودات سے اپنے آپ کو آزاد سمجھنا،ہاتھ ملانا یا چھونا،اجنبی کے لئے جو حصہ ستر ہے مثلا بال گردن کلائی وغیرہ ظاہر ہوتے ہوئے اس کے سامنے آنا سخت ناجائز و حرام ہے بلکہ جوان عورت کا اجنبی مرد سے چہرے کا پردہ بھی لازم ہے۔ مشکوٰۃ شریف میں متفق علیہ اور دیگر کتبِ احادیث میں قریبی نامحرم سے پردے کی تاکید کچھ یوں مذکور ہے:”وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ: ” إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: الْحَمْوُ الْمَوْتُ”۔ یعنی حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ انصار میں سے ایک شخص نے عرض کی یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم دیور کے متعلق ارشاد فرمایئے تو فرمایا :دیور تو موت ہے۔
مذکورہ بالا حدیث کے متعلق مراۃ المناجیح میں ہے:”یعنی بھاوج کا دیور سے بے پردہ ہونا موت کی طرح باعث ہلاکت ہے۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ حمو سے مراد صرف دیور یعنی خاوند کا بھائی ہی نہیں بلکہ خاوند کے تمام وہ قرابت دار مراد ہیں جن سے نکاح درست ہے جیسے خاوند کا چچا ماموں پھوپھا وغیرہ ۔ اسی طرح بیوی کی بہن یعنی سالی اور اس کی بھتیجی بھانجی وغیرہ سب کا یہ ہی حکم ہے۔خیال رہے کہ دیور کو موت اس لیے فرمایا کہ عادتًا بھاوج دیور سے پردہ نہیں کرتیں بلکہ اس سے دل لگی،مذاق بھی کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اجنبیہ غیر محرم سے مذاق دل لگی کسی قدر فتنہ کا باعث ہے۔ اب بھی زیادہ فتنہ دیور بھاوج اور سالی بہنوئی میں دیکھے جاتے ہیں۔“(مرآۃ المناجیح، ج 05، ص 14، حدیث :٣١٠٢)
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ اسی طرح ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ” بہنوئی کا حکم شرع میں بالکل مثل حکم اجنبی ہے بلکہ اس سے بھی زائد کہ وہ جس بے تکلفی سے آمد و رفت، نشست و برخاست کرسکتا ہے غیر شخص کی اتنی ہمت نہیں ہوسکتی لہذا صحیح حدیث میں ہے: قالوا یارسول اﷲ ارأیت الحمو قال الحمو الموت صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ! جیٹھ، دیور، اور ان کے مثل رشتہ داران شوہر کا کیا حکم ہے۔ فرمایایہ تو موت ہیں۔ “(فتاوٰی رضویہ،ج٢٢،ص:٢٣٧) فتاوی رضویہ شریف کے دوسرے مقام پر فرماتے کہ “اجنبی جوان عورت کو مرد کے ہاتھ پاؤں چھونا جائز نہیں اگر چہ پیر ہو”۔(فتاوی رضویہ ، جلد ٢٢،ص٢٤٥)
واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
❤️❤️❤️
کتبہ: اسیر قادری مجاہدی
تاریخ: ٥/صفر المظفر/١٤٤٦
١٠/اگست/٢٠٢٤
الجواب صحیح
مصدق:مفتی محمد شہنواز شفق مصباحی صاحب قبلہ
قاضی شہر ممبرا ، مہاراشٹر ، الھند
صدر دارالعلوم فیضان رضا