logo
phone

Follow Us:

کیا اللہ تعالی موٹے عالم کو پسند نہیں فرماتا ؟

کیا اللہ تعالی موٹے عالم کو پسند نہیں فرماتا ؟

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاته : افتخار احمد گجرات سے : حدیثِ پاک : توریت شریف میں ہے کہ : الله تبارک و تعالٰی مُوٹے عَالِم کو پسند نہیں کرتا ہے۔یہاں پر مُوٹے عَالِم کا مطلب یہ ہے جُو ( نفس پروری ) کرتے کرتے مُوٹا ہو جاتا ہے ۔ وہ مراد ہے؟
حضرت سوال یہ ہے کہ حضور مالک و مختار آقا ﷺ کے اُمّتی ( اہل سنت والجماعت ) میں جو عَالِم ہیں اور جو غیر عَالِم ہیں ( نفس پروری ) کرتے کرتے مُوٹا ہو جاتا ہے تو کیا الله تبارک و تعالٰی اُنہیں پسند نہیں کرتا ہے ؟ رہنمائی فرمائیں
حضرت ( نفس پروری ) کا مطلب بھی بتائیں ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ الجواب بعون الملک الوھاب

سید عالم صلی اللہ علیه و سلم نے یہودیوں کے ایک بڑے عالم مالک بن صیف سے یہ جملہ توریت شریف کے حوالے سے ارشاد فرمایا تھا : اِنَّ اللہَ یُبْغِضُ الْحِبْرَ السَّمِیْنَ ۔ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو موٹا عالم ناپسند ہے ۔
اور جس کے لیے فرمایا تھا وہ اسی کا مصداق تھا اس لیے کہ اکثر علماے یہود و نصاری حرام خور عیاش تھے دنیوی مال و متاع عیش و آرام لذیذ خورد و نوش انکا مقصد حیات تھا اور جسکے موٹاپے کی وجوہات مذکورہ بالا چیزیں ہوں یقینا ایسا موٹاپا ناراضگیِ رب العالمین کا موجب ہے اور یہیں سے ظاہر ہوگیا کہ علمائے اہلسنت یعنی علماے حق میں سے بعض کا بھاری جسامت والا ہونا اس طور پر یعنی حرام خوری یا عیاشی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ قدرتی طور پر ہے ۔
امام ملا علی قاری رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں : وفي شرح مسلم قالوا: والمذموم من السمن ما يستكسب، وأما ما هو خلقه فلا يدخل في هذا (مِرقاۃ المَفاتیح ج11 ص_157 تحتَ الحدیث : 6010) یعنی شرح مسلم میں ہے : مذموم (برا) موٹاپا وہ ہے جو (مصنوعی طور پر) حاصل کیا جائے، اور جو کسی کی فطرت میں شامل ہو (یعنی قدرتی طور پر ہو) ، وہ اس حکم میں شامل نہیں ہے ۔ لہذا قدرتی طور پر ہو تو کوئی بات نہیں اور اگر کوئی عیاش عالم نما شخص یا کوئی عام شخص جو علماے یہود کی طرح صرف مال جمع کرنے اور حرام و حلال میں تمیز کیے بغیر صرف کھا کھا کر موٹا ہونے کے لیے پیدا ہوا ہو تو ایسے موٹے سے اللہ تعالی ضرور نفرت فرماتا ہے ۔ یہی مطلب ہے نفس پروری کا ۔ علاوہ ازیں موٹا ہونا بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہے خواہ قدرتی طور پر ہو یا مصنوعی طور پر ، حلال کھا کر ہو یا حرام کھا کر ، عالم ہو یا جاہل سب کے لیے بہت سے دینی دنیوی نقصان کا سبب یہی موٹاپا ہے ، ہزارہا بیماریاں اسی موٹاپے کی دَین ہیں اور دینی نقصان کے بارے میں علامہ تورپشتی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : كنی به عن الغفلة و قلة الاهتمام بأمر الدين، فإن الغالب على ذوي السمانة أن لا يهتموا بارتياض النفوس بل معظم همتهم تناول الحظوظ والتفرغ للدعة والنوم ۔ (مِرقاۃ المَفاتیح ج_11 ص_157 تحتَ الحدیث : 6010) یعنی (مذموم موٹاپا) اس سے غفلت اور دین کے امور میں کم توجہ دینا مراد ہے، کیونکہ موٹے لوگوں میں عام طور پر نفس کی ریاضت اور اصلاح کی فکر کم ہوتی ہے، اور ان کی زیادہ تر توجہ اپنی خواہشات پوری کرنے، عیش و آرام اور نیند پر ہوتی ہے ۔ اسی لیے سرور کونین ﷺ کا فرمانِ حکمت نشان ہے : اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو تم میں سب سے زِیادہ پسند وہ بندہ ہے جو کم کھانے والا اور خفیف ( یعنی ہلکے ) بَدَن والا ہے ۔ ( اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص ۲۰ حدیث ۲۲۱) موٹاپے کے تعلق سے مزید وضاحت فیصلہ کن عبارت مفتی احمد یار خان نعیمی علیه الرحمہ کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں ! آپ فرماتے ہیں : “موٹاپا تین قسم کا ہے ایک وہ جو حرام خوری کے ذریعہ حاصل کیا جائے حرام خوری سے انسان بہت جلد موٹا ہو جاتا ہے مگر اس موٹاپے سے جسم میں طاقت چہرہ پر نورانیت عبادات میں لذت روزی میں برکت نہیں ہوتی ۔ ایسے گوشت کو دوزخ کی آگ بہت جلد پکڑے گی جیسے پیٹرول میں بھیگی ہوئی لکڑی کو آگ ۔ دوسرا موٹاپا عیش و عشرت کا ، یہ بھی اچھا نہیں کہ انسان پر تکالیف آتی رہنی چاہیے تا کہ نفس قابو سے باہر نہ ہو جائے ۔ تیسرا وہ موٹاپا جو دنیا کی بے نیازی بے فکری کی وجہ سے خود بخود حاصل ہو جائے وہ برا نہیں ۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ موٹاپا برا ہے سوائے امام محمد کے موٹاپے کے ، پوچھا گیا کیا مطلب ؟ فرمایا : امام محمد نے دنیا کی فکریں چھوڑ دیں اپنے کام اللہ ﷻ کے سپرد فرما دیے اس بے فکری سے موٹے ہوگئے – یہ موٹاپا اللہ ﷻ کی نعمت ہے ۔ (تفسیر نعیمی ج۷ ، الانعام : تحتَ الآیت : ۹۱)
واللہ اعلم بالصواب ۔

کتبہ:فقیر قادری مجاہدی
تاریخ:٢١/جمادى الاولى/١٤٤٦ه‍
٢٤/نوبر /٢٠٢٤ء
ماشاءاللہ بہت عمدہ
مصدق:مفتی محمد شہنواز شفق مصباحی صاحب قبلہ
قاضی شہر ممبرا ، مہاراشٹر ، الھند
صدر دارالعلوم فیضان رضا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *